اشاعتیں

مئی, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

یہ پری چہرہ لوگ | افسانہ | غلام عباس

افسانہ : یہ پری چہرہ لوگ لکھاری : غلام عباس    پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ بیگم بلقیس تراب علی ہر سال کی طرح اب کے بھی اپنے بنگلے کے باغیچے میں مالی سے پودوں اور پیڑوں کی کانٹ چھانٹ کرارہی تھیں۔ اس وقت دن کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ سیٹھ تراب علی اپنے کام پر اور لڑکے لڑکیاں اسکولوں کالجوں میں جا چکے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب بڑی بے فکری کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھی مالی کے کام کی نگرانی کر رہی تھیں۔  بیگم تراب علی کو نگرانی کے کاموں سے ہمیشہ بڑی دلچسپی رہی تھی۔ آج سے پندرہ سال پہلے جب ان کے شوہر نے جو اس وقت سیٹھ تراب علی نہیں بلکہ شیخ تراب علی کہلاتے تھے اور سرکاری تعمیرات کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ اس نواح میں بنگلہ بنوانا شروع کیا تھا تو بیگم صاحب نے اس کی تعمیرات کے کام کی بڑی کڑی نگرانی کی تھی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ بنگلہ بڑی کفایت کے ساتھ اور تھوڑے ہی دنوں میں بن کر تیار ہو گیا تھا۔  بیگم تراب علی کا ڈیل ڈول مردوں جیسا تھا۔ آواز اونچی اور گمبھیر اور رنگ سانولا جو غصے کی حالت میں سیاہ پڑ جایا کرتا۔ چنانچہ نوکر چاکر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے تھر تھر کانپنے ...

یہ رشتہ و پیوند | افسانہ | بانو قدسیہ

افسانہ : یہ رشتہ و پیوند لکھاری : بانو قدسیہ اردو کی کلاس جاری تھی۔ پہلی قطار میں پانچ دمینتی روپ لڑکیاں اور باقی کرسیوں پر چھبیس جگت رنگ لڑکے بیٹھے تھے۔ پروفیسر صمدانی نے دیوانِ غالب میں بائیں ہاتھ کی انگشت شہادت نشانی کے طور پر پھنسائی اور گرج دار آواز میں بولا، ’’مس سرتاج سبک سرکے کیا معنی ہیں؟‘‘ جب سے سرتاج نے بی ایس سی میں داخلہ لیا تھا، پروفیسر صمدانی کا ہر سوال سدرشن چکر کی طرح گھوم پھر کر سرتاج تک ہی آ لوٹتا تھا۔ یوں تو ان سوالات کی وہ عادی ہو چکی تھی لیکن مزاج پرسی کے اس انوکھے ڈھب پر آج وہ پچھاڑی مارنے پر آمادہ ہوگئی۔  ’’سرمیں نے اردو اوپشنل لے رکھا ہے۔‘‘  ’’پھر بھی کوشش کیجیے۔‘‘  لڑکوں کی ٹولی میں نظروں کے پروانے اور مسکراہٹوں کے ایکسپریس تار دیے جانے لگے۔ ادھر سرتاج پر آج بے خوفی کا دورہ تھا۔  ’’میں نے دسویں تک کونونٹ میں تعلیم پائی ہے سر۔۔۔ مجھے اردو نہیں آتی۔‘‘  ’’سبکی کے تو معنی آتے ہی ہوں گے؟‘‘ یہ سوال پوچھ کر پروفیسر صمدانی خودبہت محظوظ ہوا۔ لڑکوں کے چھتے میں دبے قہقہوں کی بھنبھناہٹ اٹھی۔ سامنے قطار میں بیٹھی کبوتریا...

ذات کا محاسبہ | افسانہ | بانو قدسیہ

افسانہ : ذات کا محاسبہ لکھاری : بانو قدسیہ کھلی گٹھری کی طرح وہ بکھرا رہتا تھا۔ اس نےکئی راتیں ہمسائے کے چھنارے درخت کو کھڑکی میں سے دیکھ کر گزاری تھیں۔ ذی شان کواس درخت کے پتے ڈالیاں چاندنی راتوں میں خاموش چمک کے ساتھ بہت پراسرار وحدت لگتی تھیں۔ وہ سوچتا کہ اتنے سارے پتوں کے باوجود درخت کی اکائی کیسے قائم رہتی ہے۔ اگر یہ پتے ڈالیوں سے علیحدہ ہو جائیں تو ان بکھرے پتوں کو کیسے سمیٹا جا سکتا ہے۔  تب تک اسے معلوم نہیں تھاکہ پتے درخت کے اپنے وجود سے پیدا ہونے والے تھے اور وہ جن خواہشات کی وجہ سے بکھرا تھا وہ سب اس کے بیرون سے آئی تھیں۔ کبھی کبھی کار چلاتے ہوئے اسے احساس ہوتا کہ جس طرح جاپانی خودکشی کرتے ہیں اور ہار اکیری کرتے وقت اپنی کھوکھری کے ساتھ تمام انتڑیاں اور پیٹ کے عضلات نکال پھینکتے ہیں، ایسے ہی اس کے بھی کسی عمل سےاس کا انتڑ پٹیا بکھر گیا اور اب وہ جلد اور پٹھوں کی مضبوط ڈھال نہیں تھی جس میں اس کے بکھرے ہوئے وجود کو منڈھا جاتا۔ اس بات کا ایک بار اسے ہلکا سا خیال ان چھ ماہ کی چھٹیوں میں آیا تھا، جب اس نے ایف اے کا امتحان دے کر بی اے کے داخلے سے پہلے اپنے لیے بہت ...

بہوا | افسانہ | بانو قدسیہ

افسانہ : بہوا  لکھاری : بانو قدسیہ بہوا کے جانے کے تیسرے دن بھیا کی نئی نویلی دلہن بھی میکے چلی گئی۔ اب حقیقت تو خدا کو یا بہوا کو بہتر معلوم ہے لیکن اس کے اچانک چلے جانے سے ہمارے گھر میں عجب قسم کی خاموشی چھا گئی ہے۔ بھیا اپنا فٹ بھر لمبا سگار لے کر لان میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ حتی کہ ان کے منہ سے منے کے متعلق بھی کوئی بات نہیں نکلتی۔۔۔ اب آپ ہی بتائیے پہلے بھی کبھی یوں ہوا تھا؟  بہوا کے جانے سے پہلے تو بھیا چھین چھین کر منے کو بہوا سے لے جاتے تھے۔ کبھی اس کے لیے ہوائی جہاز بناتے۔ کبھی اس سے سرکس کراتے۔۔۔ تھک کر ان کی گود میں لیٹ جاتا تو گالیوں کی مشق کراتے لیکن اب وہ تو کرسی میں دھنسے یوں بے نیاز ہوگئے ہیں گویا منا اس گھر کا نہیں، ہمسائے کا بچہ ہے جو بھول کر یہاں آ گیا ہے۔۔۔ منا ان کی کرسی سے لگ کر آہستہ سے کہتا ہے، ’’جھا چاچا۔۔۔ جھا چاچا۔‘‘ لیکن مسکرا کر دیکھنے کے علاوہ ان کے منہ سے کوئی بات نہیں نکلتی اور میں سوچتی ہوں کہ آخر بات کیا ہے۔۔۔ دلہن میکے سے آتی کیوں نہیں۔۔۔؟ بہوا کو مہردین کیوں نہیں ڈھونڈ لاتا؟ بہوا تھی تو گھر آنگن سبھی سجا ہ...

توبہ شکن | افسانہ | بانو قدسیہ

افسانہ : توبہ شکن لکھاری : بانو قدسیہ بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے، ”مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے، ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔“  بی بی کی آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا، بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہو جاتا۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان دنوں کو یاد کر رہی تھیں جب وہ ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہوا کرتیں اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن کٹواتے، انعامات تقسیم کرواتے۔  پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے، ”لیکن آخر بات کیا ہے بی بی، ہوا کیا ہے؟“ وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے، صرف ان پرغلاف بدل جاتا ہے۔ ستار ک...