یہ رشتہ و پیوند | افسانہ | بانو قدسیہ
افسانہ : یہ رشتہ و پیوند لکھاری : بانو قدسیہ اردو کی کلاس جاری تھی۔ پہلی قطار میں پانچ دمینتی روپ لڑکیاں اور باقی کرسیوں پر چھبیس جگت رنگ لڑکے بیٹھے تھے۔ پروفیسر صمدانی نے دیوانِ غالب میں بائیں ہاتھ کی انگشت شہادت نشانی کے طور پر پھنسائی اور گرج دار آواز میں بولا، ’’مس سرتاج سبک سرکے کیا معنی ہیں؟‘‘ جب سے سرتاج نے بی ایس سی میں داخلہ لیا تھا، پروفیسر صمدانی کا ہر سوال سدرشن چکر کی طرح گھوم پھر کر سرتاج تک ہی آ لوٹتا تھا۔ یوں تو ان سوالات کی وہ عادی ہو چکی تھی لیکن مزاج پرسی کے اس انوکھے ڈھب پر آج وہ پچھاڑی مارنے پر آمادہ ہوگئی۔ ’’سرمیں نے اردو اوپشنل لے رکھا ہے۔‘‘ ’’پھر بھی کوشش کیجیے۔‘‘ لڑکوں کی ٹولی میں نظروں کے پروانے اور مسکراہٹوں کے ایکسپریس تار دیے جانے لگے۔ ادھر سرتاج پر آج بے خوفی کا دورہ تھا۔ ’’میں نے دسویں تک کونونٹ میں تعلیم پائی ہے سر۔۔۔ مجھے اردو نہیں آتی۔‘‘ ’’سبکی کے تو معنی آتے ہی ہوں گے؟‘‘ یہ سوال پوچھ کر پروفیسر صمدانی خودبہت محظوظ ہوا۔ لڑکوں کے چھتے میں دبے قہقہوں کی بھنبھناہٹ اٹھی۔ سامنے قطار میں بیٹھی کبوتریا...