اشاعتیں

علی عباس حسینی کے افسانے لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

حسنِ رہ گزر | افسانہ | علی عباس حسینی

افسانہ : حسنِ رہ گزر لکھاری : علی عباس حسینی بھائی افتخار! اب کے تمہارے ہاں کے قیام میں جو لطف ملا۔ وہ ساری عمر نہ بھولوں گا۔ عمدہ سے عمدہ غذائیں جسم کے لیے اور افضل سےافضل مباحث دماغ کے لیے۔ روحانی لذتیں تمہارے سرد پا خلوص میں تھیں۔ بھابی کی میٹھی باتوں میں تھیں۔ اور بچوں کے پیارے چہچہوں میں۔ کن کن نعمتوں کو سراہوں، ہر واقعہ دل میں پارۂ الماس کی طرح جڑا جگمگا رہاہے۔  پھر واپسی کے سفر نے اس یادگار قیام پر اس طرح کی مہر لگادی کہ کہکشاں کی طرح ہر ٹکڑا ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ میں سمجھتا تھا راستہ کاٹے نہ کٹے گا۔ لیکن وہاں شہابِ ثاقب کی سی بلا کی سرعت تھی۔  روئے گل سر ندیدیم و بہار آخر شد!  لیکن ان چند لمحوں میں تجربات کی ایک زندگی سمٹ آئی تھی۔ وہ گھڑیاں کیا تھیں تیزاب کی بوندیں تھیں جنہوں نے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغ ڈال دیے۔ نشتروں کی نوکیں تھیں جو زخموں میں ٹوٹ کر رہ گئیں اور اندمال کے بعد بھی جیتے جی کھٹکتی رہیں گی۔  میں جانتا ہوں کہ میری ان جذباتی باتوں پر تم اپنے مخصوص انداز میں مسکرا رہے ہوگے۔ تم اپنے خشک مارکسی نظریہ سے انہیں دیکھ کر اسی ط...

میخانہ | افسانہ | علی عباس حسینی

افسانہ : میخانہ لکھاری : علی عباس حسینی کلکتہ کی مشہور سڑک ہریسن روڈ پر ایک سربفلک عمارت کے بالائی حصے میں سیٹھ نتھومل اپنے چشم و چراغ چنومل کو کاروبار کے کچھ خاص گر بتارہے تھے۔  سیٹھ صاحب کے لباس کی وضع، چہرے کی قطع، توند کا گھیر، باتوں کا ہیر پھیر، غرض سارا ظاہر خاص ماڑواڑی تھا۔ مگر ڈرائینگ روم کا سامان، کوچ کرسیاں صوفے قالین، سنگ مرمر کے بُت، نیم عریاں تخئیلی تصویریں اور ریشمی پھول دار ہلکے رنگ کے پردے اس ملمع کا پتہ دیتے تھے جو ہر ہندوستانی سرمایہ دار پر مغرب پرستی نے چڑھا دیا ہے۔  رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ سڑک پر ’’بلیک آؤٹ‘‘ تھا، ٹریم گاڑیاں اور بسیں بند ہوچکی تھیں۔ ٹیکسیاں اور فوجی لاریاں خال خال چلتی تھیں۔ فضا پر ایک غنودگی اور سکوت کی سی کیفیت طاری ہوتی جارہی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے اندھیری راتوں میں مقبروں اور مرگھٹوں میں مسحوس ہوتی ہے۔ اس مرگ بدوش سکوت کو دو آوازیں بار بار توڑتیں تھیں۔ ایک تو سڑک پر تڑپتے ہوئے قحط زدہ بھوکوں کی چیخ اور دوسری پر شباب بہو کے گرامو فون پر بجتے ہوئے ریکارڈوں کی صدا۔  چُنو مل نے بیوی کے کمرے سے کسی خوش گلو کو ’’پیا...

لاٹھی پوجا | افسانہ | علی عباس حسینی

افسانہ : لاٹھی پوجا لکھاری : علی عباس حسینی ہریا لاٹھی پر ٹیک لگائے آم کے باغ میں کھڑی تھی۔ چار بج چکے تھے۔ مگر اب تک لو چل رہی تھی۔ دھوپ ہریا کے کندنی رنگ کو تپاکر گلابی بنا رہی تھی۔ جسم میں شعلے سے لپٹتے محسوس ہوتے۔ کھیتوں میں سے ایک سیاہی مائل لہر سی اٹھتی اور باغ کی طرف دوڑتی دکھائی دیتی۔ ہوا کہ ان جھونکوں سے باغ کی جھاڑیوں اور سوکھی لمبی گھاس میں پھنسے ہوئے، اٹکے ہوئے خشک پتے کھڑکھڑاتے اور درختوں کے ہرے پتے پھڑپھڑاتے تھے۔ شریر ہوا ہریا کے آنچل کو جھولے کے پینگ دیتی اور ساری کے نچلے حصے کو غبارہ بناتی تھی۔ مگر ہریا ہر بات سے بےخبر لاٹھی پر ٹھڈی رکھے فضا پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔  باغ والی گڑھیا میں اس کی بھینسیں پڑی تھیں۔ گڑھیا میں پانی نام ہی کوتھا۔ مئی کے مہینے میں یو۔پی کے سارے تال تالاب سوکھ جاتے ہیں۔ یہ گڑھیا ذرا گہری تھی اس لیے اس کے بیچ میں کیچڑ نما پانی گھٹنوں گھٹنوں اونچا اب بھی باقی تھا۔ اسی میں ہریا کی چاروں بھینسیں لیٹی بیٹھی اپنے کو ٹھنڈا کر رہی تھیں۔ گائیں ذرا زیادہ نازک مزاج اور صفائی پسند ہوتی ہیں۔ انھیں کیچڑ میں لت پت ہونا نہیں بھاتا۔ ہریا کی گائیں بھ...

بدلہ | افسانہ | علی عباس حسینی

افسانہ : بدلہ لکھاری : علی عباس حسینی پلیٹ فارم کا شور، گاڑی کی گھڑگھڑاہٹ۔ انجن کی بھک بھک۔ ’’قلی! قلی!‘‘ ’’اے بکس اس برتھ پر رکھو، بستر اس سیٹ پر‘‘۔ ’’شالا بیٹا دو آنہ مزدوری کم بتاتا ہے‘‘۔ ’’ام ایک آنہ سے زیادہ نہ دیگا امارا ملک میں ایک آنہ کا اخروٹ بہت ملتا ہے، بہت!‘‘۔ ’’میں کہتا اوں بالکل اندا اوگیا۔ سوجتا ناین!‘‘۔ ’’اے ہے میں کہتا ہوں حضّت یہ بھی کوئی انسانیت ہے کہ خود لمبے لمبے لیٹے ہیں۔ دوسروں کو بیٹھنے تک کی جگہ نہیں دیتے۔ بھئی کیا انسانیت ہے کہ خود لمبے لمبے لیٹے ہیں۔ دوسروں کو بیٹھنے تک کی جگہ نہیں دیتے۔ بھئی کیا لوگ ہیں، اخلاق تو چھوتک نہیں گیا!‘‘  غرض بنگال کوئلیں بھی تھیں، سرحد کے سارس بھی، میرٹھ کے بگلے بھی اور لکھنؤ کی نزاکت مآب کتیرا ئی بھی! ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ ٹولیاں تھیں۔ بیڑی، سگریٹ، سگار کے لمبے لمبے کش ۔ ’’ہندو چائے! مسلم چائے! ہندو پانی مسلم پانی! پان سگریٹ، بیڑی! مسلمان پان، ہندو پان! بوشو ماشا! داغاروڑا! میں کیتاؤں حضّت! حضّت!‘‘  میں نے گھبراکر اس طرف دیکھا جدھر چوڑان والی برتھ پر ایک صاحب بستر جمائے دراز تھے۔ صورت کچھ پہچانی سی...

پوتر سندور | افسانہ | علی عباس حسینی

افسانہ : پوتر سندور لکھاری : علی عباس حسینی رامو اور اس کا خاندان اس وقت کیاری میں بھدئیں کا بیہن بیٹھا رہا تھا۔ اگست کی آخری تاریخیں تھیں، رات بھر خوب مینہ پڑا تھا۔ مٹی کی کچی دیواریں کٹ کٹ کر گر گئیں تھیں۔ پھونس کے چھپر بھیگ کر دوہرے ہوگئے تھے۔ گاؤں کے تالابوں، گڑھوں میں میلے، گندے پانی کی چادر اب بھی گر رہی تھی۔ مینڈھک خوشی سے بے قابو ہوکر بے سُری آوازوں میں الاپ رہے تھے۔ پوپھٹ رہی تھی، ہوا ذراتیز ہوگئی تھی۔ اس لیے پانی کازور کم ہونے لگا تھا۔ کالے کالے بادل آگے والے مورچے پر چڑھائی کے لیے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ بجلی چمک چمک کر انھیں کوڑے لگا رہی تھی۔ اس کی روشنی میں رم جھم برسنے والی پانی کی بوندیں جگنو کی طرح چمک اٹھتیں۔ کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا، جیسے آبِ رواں کے گہرے دھانی رنگے ہوئے ڈوپٹہ پر روپہلے ستاروں کی ایک گھنی ٹیڑھی لکیر ٹانک دی گئی ہے۔  یہی وجہ تو تھی کہ رامو، بیوی اور بہو اور بیٹی سمیت کیاری میں گھسا دھان ’’روپ‘‘ رہا تھا۔ رامو کی عمر کچھ ایسی زیادہ نہ تھی۔ یہی چالیس پچاس کے درمیان۔ لیکن اس کے اکثر دانت ٹوٹ گئے تھے۔ اس کے چہرے پر جھریاں پڑگئی تھیں۔ اور وہ دوہ...

ہار جیت | افسانہ | علی عباس حسینی

افسانہ : ہار جیت  لکھاری : علی عباس حسینی چھیدی پور کی اہیر ٹولی سے جو ملاہوا آموں کا باغ ہے اس میں بڑی چہل پہل تھی۔ نوبتیا اہیر کے یہاں رام گڑھ سے جو برات آئی تھی وہ اسی میں اتاری گئی تھی۔ متعدد چولہے روشن تھے۔ بڑی بڑی کڑھائیاں چڑھی تھیں۔ پوریاں ’’چھن رہی تھیں‘‘۔ ترکاریاں بنائی جارہی تھیں۔ براتیوں کے سامنے کیلے کے پتے اور بڑے بڑے ’’پتر‘‘ رکھے تھے۔ ’’گھراتی‘‘ گرم گرم پوریاں اور ’’بھاجی‘‘ ہر ایک کے سامنے پرس رہے تھے۔ نوجوان براتیوں میں ’’لاگ ڈانٹ‘‘ تھی کہ دیکھیں کون سب سے زیادہ کھاتا ہے۔  جناتیوں نے بھی پوری پر پوری پیش کرنا شروع کردی۔ کسی نےآدھ سیر، کسی نے تین پاؤ، کسی نے سیر بھر پوریاں کھائیں مگر رام دُلارے کا پیٹ تھا کہ مٹکا، کسی طرح بھرتا ہی نہ تھا۔ وہ ایک ’’بیٹھک‘‘ میں ڈیڑھ سیر پوریاں کھا گیا۔ پھر جب ہارنے والے مقابل نے کہاکہ اس کی سند نہیں، پوریاں گھی میں ترتھیں۔ مزے کی تھیں، گرم گرم اور نرم نرم تھیں۔ تان کے کھاگئے۔ روٹی کھاؤ تو البتہ جانیں مرد ہو، اس لیے لڑکی والوں سے دوسیر آٹا، آدھ سیر دال اور پچیس تیس اپلے منگائے۔ دال ایک ہاڈی میں چڑھا دی۔ آٹا کیلے کے پتے پر...