حسنِ رہ گزر | افسانہ | علی عباس حسینی
افسانہ : حسنِ رہ گزر لکھاری : علی عباس حسینی بھائی افتخار! اب کے تمہارے ہاں کے قیام میں جو لطف ملا۔ وہ ساری عمر نہ بھولوں گا۔ عمدہ سے عمدہ غذائیں جسم کے لیے اور افضل سےافضل مباحث دماغ کے لیے۔ روحانی لذتیں تمہارے سرد پا خلوص میں تھیں۔ بھابی کی میٹھی باتوں میں تھیں۔ اور بچوں کے پیارے چہچہوں میں۔ کن کن نعمتوں کو سراہوں، ہر واقعہ دل میں پارۂ الماس کی طرح جڑا جگمگا رہاہے۔ پھر واپسی کے سفر نے اس یادگار قیام پر اس طرح کی مہر لگادی کہ کہکشاں کی طرح ہر ٹکڑا ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ میں سمجھتا تھا راستہ کاٹے نہ کٹے گا۔ لیکن وہاں شہابِ ثاقب کی سی بلا کی سرعت تھی۔ روئے گل سر ندیدیم و بہار آخر شد! لیکن ان چند لمحوں میں تجربات کی ایک زندگی سمٹ آئی تھی۔ وہ گھڑیاں کیا تھیں تیزاب کی بوندیں تھیں جنہوں نے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغ ڈال دیے۔ نشتروں کی نوکیں تھیں جو زخموں میں ٹوٹ کر رہ گئیں اور اندمال کے بعد بھی جیتے جی کھٹکتی رہیں گی۔ میں جانتا ہوں کہ میری ان جذباتی باتوں پر تم اپنے مخصوص انداز میں مسکرا رہے ہوگے۔ تم اپنے خشک مارکسی نظریہ سے انہیں دیکھ کر اسی ط...