اشاعتیں

جون ایلیا کی نظمیں لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اجنبی شام | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان:  اجنبی شام  شاعر: جون ایلیا دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر اڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف بستیوں کی طرف بنوں کی طرف اپنےگلوں کو لے کے چرواہے سرحدی بستیوں میں جا پہنچے دل ناکام میں کہاں جاؤں اجنبی شام میں کہاں جاؤں

ناکارہ | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: ناکارہ    شاعر: جون ایلیا کون آیا ہے کوئی نہیں آیا ہے پاگل تیز ہوا کے جھونکے سے دروازہ کھلا ہے اچھا یوں ہے بیکاری میں ذات کے زخموں کی سوزش کو اور بڑھانے تیز روی کی راہ گزر سے محنت کوش اور کام کے دن کی دھول آئی ہے دھوپ آئی ہے جانے یہ کس دھیان میں تھا میں آتا تو اچھا کون آتا کس کو آنا تھا کون آتا

دریچہ ہائے خیال | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: دریچہ ہائے خیال شاعر: جون ایلیا چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں اور یہ سب دریچہ ہائے خیال جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں بند کر دوں کچھ اس طرح کہ یہاں یاد کی اک کرن بھی آ نہ سکے چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں جیسے تم صرف اک کہانی تھیں جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

درخت زرد | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: درخت زرد  شاعر: جون ایلیا نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگی وہ کن خوابوں سے جانے آشنا نا آشنا ہوگی تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے تمہیں کیسے گماں ہوں گے تمہیں کیسے گلے ہوں گے تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو نہ جانے کون دوشیزہ تمہاری زندگی ہوگی نہ جانے اس کی کیا بایستگی شائستگی ہوگی اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہے ہو گے نہ جانے تم نے کتنی کم غلط اردو لکھی ہوگی یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے یہ صنف نثر ہم نابالغوں کے فن کا حصہ ہے وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میں گڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اس کے گالوں میں گماں یہ ہے تمہاری بھی رسائی نارسائی ہو وہ آئی ہو تمہارے پاس لیکن آ نہ پائی ہو وہ شاید مائدے کی گند بریانی نہ کھاتی ہو وہ نان بے خمیر میدہ کم تر ہی چباتی ہو وہ دوشیزہ بھی شاید داستانوں کی ہو دل دادہ اسے معلوم ہوگا زالؔ تھا سہرابؔ کا دادا تہمتن یعنی رستمؔ تھا گرامی سامؔ کا وارث گرامی سامؔ تھا صلب نر مانیؔ کا خوش زادہ (یہ میری ایک خواہش ہے جو مشکل ہے) وہ نجمؔ آفندی مرحوم کو تو جانتی ...