اشاعتیں

احمد ندیم قاسمی کے افسانے لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

الحمداللہ | افسانہ | احمد ندیم قاسمی

افسانہ : الحمداللہ  لکھاری : احمد ندیم قاسمی شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے۔ کھّدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاری والی ریشمی خوشابی لنگی، دو گھوڑا بوسکی کی قمیص، جس کی آستینوں کی چنٹوں کا شمار سینکڑوں میں پہنچتا تھا۔ اودے رنگ کی مخمل کی واسکٹ جس کی ایک جیب میں قطب نما ہوتا تھا تو دوسری جیب میں نسوارکی نرسئی ڈبیہ ہوتی۔ سر پر بادامی رنگ کی مشہدی لنگی جس میں کلاہ کی مطلاّ چوٹی چمکتی رہتی تھی۔ ہاتھ میں عصا جس پر جگہ جگہ گلٹ کے بند اور پیتل کے کوکے جڑے ہوئے تھے۔ بالوں میں کوئی بڑا کافر تیل جس کی خوشبو گلیوں میں لٹکتی رہ جاتی تھی۔  قدرے اوپر اٹھی ہوئی پتلیوں والی آنکھوں کے پپوٹوں میں سرمہ تو جیسے رچ کر رہ گیا تھا۔ انگلیوں میں حاجیوں کے لائے ہوئے بڑے بڑے نگینوں والی چاندی کی انگشتریاں جو وضو سے پہلے دن میں چار پانچ بار اترتی تھی۔ مگر ان کی ترتیب میں کبھی کوئی فرق نہ دیکھا گیا اور پھر مولوی ابل کی آواز! شکر ہے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی یہ نعمت کلام پاک کی تلاوت میں استعمال ہوئی ورنہ اگرمولوی ماہیے کی کلی الاپ دیتا تو گاؤں بھرکی لڑکیوں کو سنبھالنا مش...

گنڈاسا | افسانہ | احمد ندیم قاسمی

افسانہ : گنڈاسا لکھاری : احمد ندیم قاسمی اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی ’’چوکیاں‘‘ چن لی تھیں۔ ’’پڑکوڈی‘‘ کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھین ٹھئے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جا رہا تھا۔  مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوا رہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا، پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے، انہوں نے بجتے ہوئے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوئے بھاگنے لگے اور پھر آناً فاناً سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی۔‘‘ مولا کہاں ہے؟‘‘  مولا ہی کا کھیل دیکھنے تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھنچے چلے آئے تھے۔ ’’مول...

بابا نور | افسانہ | احمد ندیم قاسمی

افسانہ : بابا نور لکھاری : احمد ندیم قاسمی ’’کہاں چلے بابا نور؟‘‘ ایک بچے نے پوچھا۔ ’’بس بھئی، یہیں ذرا ڈاک خانے تک۔‘‘ بابا نور بڑی ذمے دارانہ سنجیدگی سے جواب دے کر آگے نکل گیا اور سب بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ صرف مولوی قدرت اللہ چپ چاپ کھڑا بابا نور کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا، ’’ہنسو نہیں بچو۔ ایسی باتوں پر ہنسا نہیں کرتے۔ اللہ تعالی کی ذات بے پروا ہے۔‘‘  بچے خاموش ہو گئے اور جب مولوی قدرت اللہ چلا گیا، تو ایک بار پھر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بابا نور نے مسجد کی محراب کے پاس رک کر جوتا اتارا، ننگے پاؤں آگے بڑھ کر محراب پر دونوں ہاتھ رکھے، اسے ہونٹوں سے چوما، پھر اسے باری باری دونوں آنکھوں سے لگایا، الٹے قدموں واپس ہو کر جوتے پہنے اور جانے لگا۔ بچے یوں اِدھر اُدھر کی گلیوں میں کھسکنے لگے جیسے ایک دوسرے سے شرما رہے ہوں۔  بابا نور کا سارا لباس دھلے ہوئے سفید کھدر کا تھا۔ سر پر کھدر کی ٹوپی جو سر کے بالوں کی سفیدی سے گردن تک چڑھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی سفید داڑھی کے بال تازہ تازہ کنگھی کی وجہ سے خاص ترتیب سے سینے پر پھیلے ہوئے تھے۔گورے رنگ میں زردی نمایاں تھی ،چ...

پرمیشر سنگھ | افسانہ | احمد ندیم قاسمی

افسانہ : پرمیشر سنگھ   لکھاری : احمد ندیم قاسمی اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی جیب سے روپیہ گر پڑے۔ ابھی تھا اور ابھی غائب۔ ڈھنڈیا پڑی مگر بس اس حد تک کہ لٹے پٹے قافلے کے آخری سرے پر ایک ہنگامہ صابن کی جھاگ کی طرح اٹھا اور بیٹھ گیا۔ ’’کہیں آ ہی رہا ہو گا۔‘‘ کسی نے کہہ دیا، ’’ہزاروں کا تو قافلہ ہے۔‘‘ اور اختر کی ماں اس تسلی کی لاٹھی تھامے پاکستان کی طرف رینگتی چلی آئی تھی۔ ’’آ ہی رہا ہو گا۔‘‘ وہ سوچتی، ’’کوئی تتلی پکڑنے نکل گیا ہو گا اور پھر ماں کو نہ پا کر رویا ہو گا اور پھر۔ پھر اب کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ سمجھ دار ہے پانچ سال سے تو کچھ اوپر ہو چلا ہے۔ آ جائے گا۔ وہاں پاکستان میں ذرا ٹھکانے سے بیٹھوں گی تو ڈھونڈ لوں گی۔‘‘  لیکن اختر تو سرحد سے کوئی پندرہ میل دور ادھر یونہی بس کسی وجہ کے بغیر اتنے بڑے قافلے سے کٹ گیا تھا۔ اپنی ماں کے خیال کے مطابق اس نے تتلی کا تعاقب کیا یا کسی کھیت میں سے گنّے توڑنے گیا اور توڑتا رہ گیا۔ بہر حال وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا، ’’میں ...