اشاعتیں

غلام عباس کے افسانے لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اوور کوٹ | افسانہ | غلام عباس | Over Coat | Afsana | Ghulam Abbas

افسانہ : اوور کوٹ  لکھاری : غلام عباس      جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔  یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ...

آنندی | افسانہ | غلام عباس | Anandi | Afsana | Ghulam Abbas

افسانہ : آنندی   لکھاری : غلام عباس     بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔  بلدیہ کے ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت سے تقریر کر رہے تھے، "اور پھر حضرات آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گا ہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بناؤ سنگار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پران کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق ب...

یہ پری چہرہ لوگ | افسانہ | غلام عباس

افسانہ : یہ پری چہرہ لوگ لکھاری : غلام عباس    پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ بیگم بلقیس تراب علی ہر سال کی طرح اب کے بھی اپنے بنگلے کے باغیچے میں مالی سے پودوں اور پیڑوں کی کانٹ چھانٹ کرارہی تھیں۔ اس وقت دن کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ سیٹھ تراب علی اپنے کام پر اور لڑکے لڑکیاں اسکولوں کالجوں میں جا چکے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب بڑی بے فکری کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھی مالی کے کام کی نگرانی کر رہی تھیں۔  بیگم تراب علی کو نگرانی کے کاموں سے ہمیشہ بڑی دلچسپی رہی تھی۔ آج سے پندرہ سال پہلے جب ان کے شوہر نے جو اس وقت سیٹھ تراب علی نہیں بلکہ شیخ تراب علی کہلاتے تھے اور سرکاری تعمیرات کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ اس نواح میں بنگلہ بنوانا شروع کیا تھا تو بیگم صاحب نے اس کی تعمیرات کے کام کی بڑی کڑی نگرانی کی تھی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ بنگلہ بڑی کفایت کے ساتھ اور تھوڑے ہی دنوں میں بن کر تیار ہو گیا تھا۔  بیگم تراب علی کا ڈیل ڈول مردوں جیسا تھا۔ آواز اونچی اور گمبھیر اور رنگ سانولا جو غصے کی حالت میں سیاہ پڑ جایا کرتا۔ چنانچہ نوکر چاکر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے تھر تھر کانپنے ...