اشاعتیں

جون, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سزا | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: سزا شاعر: جون ایلیا ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں  تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم  میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں  تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں  اور اس طرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں  تم جس زمین پر ہو میں اس کا خدا نہیں  پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو  بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم  جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو  تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض  تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو  میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا  تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو  تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی  اس رنگ اس ادا میں بھی پرکار ہی رہو  میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات  میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو  اپنی متاع ناز لٹا کر مرے لیے  بازار التفات میں نادار ہی رہو  جب میں تمہیں نشاط محبت نہ دے سکا  غم میں کبھی سکون رفاقت نہ دے سکا  جب میرے سب چراغ تمنا ہوا کے ہیں  جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں  پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کو...

رمز | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: رمز شاعر: جون ایلیا تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے     میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں  میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں  میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں  ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر  ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن  مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا  زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا 

اوور کوٹ | افسانہ | غلام عباس | Over Coat | Afsana | Ghulam Abbas

افسانہ : اوور کوٹ  لکھاری : غلام عباس      جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔  یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ...

آنندی | افسانہ | غلام عباس | Anandi | Afsana | Ghulam Abbas

افسانہ : آنندی   لکھاری : غلام عباس     بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔  بلدیہ کے ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت سے تقریر کر رہے تھے، "اور پھر حضرات آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گا ہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بناؤ سنگار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پران کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق ب...