چھمو | افسانہ | بانو قدسیہ
افسانہ : چھمو لکھاری : بانو قدسیہ میں نے اسے پہلی بار بیگم صاحبہ کے ساتھ ہی دیکھا تھااور بیگم صاحبہ سےمیری ملاقات ایک دن اتفاقاً ہوگئی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ ہم سب سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ گرمیوں میں یہ تیاریاں بڑی طول طویل ہوتی ہیں۔ بستر باہر نکالے جاتے ہیں۔ گھڑوں میں پانی بھرا جاتا ہے۔ پنکھوں کی تلاش ہوتی ہے۔ مسہریاں تانی جاتی ہیں اور پھر بھی نیند ہے کہ کسی خوش قسمت ہی کی آنکھوں میں بسرام کرتی ہوگی۔ میں اپنا دوپٹہ بانہوں پر لپیٹے پڑی تھی کیونکہ مچھروں کا دستہ بار بار یورش کر رہا تھا اور گرمی کا یہ عالم تھا کہ چادر اور مسہری میں دم گھٹتا تھا۔ امی قریب ہی جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہی تھیں۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پنکھی اٹھا لیتیں۔ دوپٹے سے گردن پوچھتیں اور پھر بڑی بددلی سے سر جھکا کر نماز پڑھنے لگتیں۔۔۔ یہ وقت کسی کو ملنے کا نہ تھا لیکن کبھی کبھی اچانک کسی ایسے انسان سے ملاقات ہو جایا کرتی ہے جیسے کوئی سیارہ گھومتا پھرتا آپ کے محور پر آ نکلا ہو۔ کار کی بتیاں پھاٹک پر لہرائیں، پھر انجن بند ہوگیا اور پھر اپنا آپ دھکیلتی ہوئی کار پورچ میں کھڑی ہو گئی۔ میں اپنا پھٹا ہوا دوپٹہ بازو...