اشاعتیں

شاید | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: شاید  شاعر: جون ایلیا میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں شاید جان جاں شاید کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو ہے دل غمگیں بہت غمگیں کہ اب تم یاد دل دارانہ آتی ہو شمیم دور ماندہ ہو بہت رنجیدہ ہو مجھ سے مگر پھر بھی مشام جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو جدائی میں بلا کا التفات محرمانہ ہے قیامت کی خبر گیری ہے بے حد ناز برداری کا عالم ہے تمہارے رنگ مجھ میں اور گہرے ہوتے جاتے ہیں میں ڈرتا ہوں مرے احساس کے اس خواب کا انجام کیا ہوگا یہ میرے اندرون ذات کے تاراج گر جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئی تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے دل سہما ہوا سا ہے تو پھر تم کم ہی یاد آؤ متاع دل متاع جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ بہت کچھ بہہ گیا ہے سیل ماہ و سال میں اب تک سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے کچھ تو رہ جائے

سزا | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: سزا شاعر: جون ایلیا ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں  تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم  میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں  تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں  اور اس طرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں  تم جس زمین پر ہو میں اس کا خدا نہیں  پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو  بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم  جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو  تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض  تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو  میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا  تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو  تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی  اس رنگ اس ادا میں بھی پرکار ہی رہو  میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات  میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو  اپنی متاع ناز لٹا کر مرے لیے  بازار التفات میں نادار ہی رہو  جب میں تمہیں نشاط محبت نہ دے سکا  غم میں کبھی سکون رفاقت نہ دے سکا  جب میرے سب چراغ تمنا ہوا کے ہیں  جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں  پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کو...

رمز | نظم | جون ایلیا

نظم کا عنوان: رمز شاعر: جون ایلیا تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے     میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں  میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں  میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں  ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر  ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن  مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا  زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا 

اوور کوٹ | افسانہ | غلام عباس | Over Coat | Afsana | Ghulam Abbas

افسانہ : اوور کوٹ  لکھاری : غلام عباس      جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔  یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ...